جدائی کے بعد
گذشتہ سے پیوستہ
یہ جدائی کے لمحات بڑے ظالم ہوتے ہیں شاید جدائی سے بھی زیادہ۰۰۰۰۰۰۰
اسکا سارا وجود اسے روکنے پہ مضر۰۰۰۰۰مگر قدم آگے بڑھنے پہ مجبور۰۰۰۰۰۰اُسے محسوس ہورہا تھاکہ اسکے قدموں کے نیچے نرم گھاس نہیں انگارے ہوں۰۰۰۰۰۰۰جیسے سارے راستے میں کانٹے بچھے ہوں۰۰۰۰۰۰چھوٹا سا راستہ ،،،میلوں کا سفر لگ رہا تھا۰۰۰۰وہ چاہتے ہوئے بھی پیچھے مڑ کر مجھے دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔اُسے معلوم تھا اگر مڑ کر دیکھا تو “ پتھر “ ہو جائے گی۔ کبھی نہ جا پائے گی۔
وہ اپنے کانپتے لرزتے وجود کو دھکیلتے ہوئے پارک کے خارجی دروازے تک آ پہنچی تھی۔ ایک قدم کے بعد اُسے باہر نکل جانا تھا،،،،،کبھی نہ پلٹنے کے لئے۰۰۰۰۰۰وہ اپنے پیچھے میرا دھواں دھواں ہوتا چہرہ ،،،برستی آنکھیں ،،،،ڈوبتے دل کے ساتھ فنا ہوتا وجود محسوس کر سکتی تھی۔
میں اپنی جگہ بت سا کھڑا یک ٹک ،اپنی زندگی کو دور جاتے دیکھ رہا تھا۔اسکی ایک دید کی منتظر میری آنکھیں اسکے جاتے وجود پر جیسے جم سی گئی تھیں۔ وہ پلٹے بغیر دیکھ سکتی تھی،،،،میری پور پور سے رستا لہو۰۰۰۰۰۰۰میرے انگ انگ سے چھلکتا دکھ ۰۰۰۰۰۰میری رگ و پے سے بہتا رنج و غم۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰اسکے قدم من بھر کے ہو چلے تھے۔اسکا سارا وجود لاکھ کوشش کے باوجود قدم باہر نکالنے سے قاصر تھا۔مگر وہ جانتی تھی کہ اُسے جانا ہی ہوگا۔ مجھے اپنی چاہت پر یقین۔۔۔۔میں اپنی نم آنکھیں ۰۰۰دھڑکتے دل اور لرزتے وجود کے ساتھ اسکے پلٹنے کا منتظر۰۰۰۰۰۰
میرا یقینِ کامل ہے کہ زمانہ خلاف کیوں نہ ہو۔۔۔حالات کیسے بھی ہوں۔۔۔دنیا جو بھی کرے۔۔ وقت کتنا ہی ظالم ہوجائے۔۔۔سب ساتھ چھوڑ جائیں ۔۔۔
۰۰۰۰۰۰۰۰مگر
سچی محبت” کبھی فنا نہیں ہوسکتی۔۔۔اُسکی جڑیں ہماری روح سے پیوستہ ہیں۔۔۔ہم ملیں نہ ملیں ۔۔۔ساتھ رہیں یا دور۔۔۔ہماری روحوں کے بندھن اُٹوٹ ہیں۔۔۔انکا تعلق اس جہانِ فانی سے نہیں بلکہ اُس ابدی دنیا سے ہے۔۔۔ہمارا بندھن ایک ابدی بندھن۔۔۔۔۔۔
بالآخر اُس نے میری طرف پلٹ کر دیکھا۔۔۔جیسے آنسوؤں کی جھڑی تھی جو دونوں سمت بہہ رہی تھی۔۔ میں اسکی کیفیت،، اسکی مجبوری ،،،اسکی چاہت سمجھ سکتا تھا۔۔۔مجھے پتہ تھا وقت ہم سے جیت گیا ہے۔۔۔محبت ہار گئی ہے۔۔۔اُسے ہارنا ہی ہوتا ہے۔۔۔کبھی کسی کی خوشی کی خاطر۔۔۔۔ کبھی کسی کے مان کی خاطر۔۔۔۔اور کبھی کسی کی انا کی خاطر۰۰۰۰۰۰۰۰۰ مگر محبت مرتی نہیں ہے۔۔۔نا ماری جا سکتی ہے وہ تو اور شدت سے اپنے آپ کو ہمارے وجود کی اتھاہ گہرائیوں میں چھپا لیتی ہے۔۔جو ہماری تنہائیوں میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جگمگاتی ہے ۔۔۔۔ چہچہاتی ہےاور گنگناتی ہے۔
میرے نزدیک جدائی کے بعد محبت کی شدت اور بڑھ جاتی ہے چاہت کی طلب انسان کو اندر سے بھسم کر جاتی ہے، مگر کسی کی محبت چھیننے والا اُسے جیت کر بھی ہار جاتا ہے۔اسکے حصے میں صرف اور صرف راکھ کا ڈھیر آتا ہے۔ کسی بھی قسم کے جذبات سے مبّرا “ ایک راکھ کا ڈھیر” ۔۔۔۔۔
میں دیوانہ وار اسکی طرف لپکا۔۔۔۔اُسکی آنکھ سے بہتے آنسو،،،،مجھے اپنے ہر غم،،،ہر دکھ سے زیادہ عزیز تھے۔میں پلک جھپکتے میں اسکے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ہم دونوں ایک دوسرے سے آنکھیں چُرائے ساکت کھڑے تھے۔۔۔ہم جانتے تھے کہ ہم ایک دوسرے کا سامنا نہیں کرسکتے ۔۔۔۔
سنو! آخرکار اس نے خاموشی توڑی۔۔۔۔۔میں ایک آخری بار تم کو سنُنا چاہتی ہوں۔۔۔اُس نے بغیر مجھ سے نظریں ملائے اپنی بات کہی۔۔۔۔ اور میری اک التجا بھی ہے، میں نے سوالیہ نظروں سے اُسکی جھکی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پلیز میرے قریب آنے یا ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرنا۔۔میں اتنی مضبوط نہیں ہوں ۔۔۔۔ میں اسکے لہجے میں چھپے درد،،، اسکی بے بسی اور اسکی محبت محسوس کر سکتا تھا۔وہ مجھے سُننا چاہتی تھی مگر میرے پاس کہنے کو کیا بچا تھا۔۔۔۔میں اُسے اپنی محبت کی شدت سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔مگر میں جانتا تھا کہ اسکی محبت شاید مجھ سے بھی زیادہ شدید ہے۔۔۔۔۔میں بامشکل تمام اپنے بکھرتے وجود کو سنبھالتے ہوئے گویا ہوا۔۔
میری بس ایک ہی التجا ہے۔۔۔۔۔مجھے کبھی اپنی محبت کے کھونے کا احساس نہ ہونے دینا۔۔۔۔تم جہاں بھی ہو۔۔۔۔جیسی بھی ہو ۔۔۔۔میرے اس یقینِ کامل کو زندہ رکھنا کہ تم کسی بھی حال میں بدل نہیں سکتی۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ تمہارے وجود کو چھو کر آنے والا ہر اک ہوا کا جھونکا میرے اس یقین ِ محبت کو دوام بخشتا رہے گا۔۔۔۔
سنو! ذرا میری طرف دیکھو۔۔۔۔
میں نے اک آخری التجا کی۔۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔۔
میں کمزور پڑجاؤنگی۔۔۔۔اس نے آہستگی سے خدا حافظ کہا اور قدم آگے بڑھا دئیے۔
اور میں۔۔۔۔۔۔
میں اب بھی اسی جگہ کھڑا ہوں جہاں وہ چھوڑ گئی تھی۔ زندگی جیسے تھم سی گئی ہو۔۔۔۔میری زندگی کا ہر اک پل اس یقین ِکامل پر منحصر ہے کہ “ وہ لوٹ کر آئے گی” ۔۔۔۔۔ہر اک آنے والا ہوا کا جھونکا اسکا پیغامِ محبت لاتا ہے اور میں جی اُٹھتا ہوں ۔۔۔۔۔اُس دن کے انتظار میں جو ہمارا ہوگا۔۔۔۔۔اُس دن کو آنا ہی ہوگا۔۔۔۔۔وہ آئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ابنِ آدم)
