ہمارے قدموں تلے چرچراتے خشک پتے اس ویراں سڑک کی خاموشی توڑنےکی ناکام کوششوں میں مصروف تھے۔صبح کے اِس سمے ہر طرف گہری اور دبیز دھند کا راج تھا۔ایسا لگتا تھا کہ بادل فلک سےزمیں کو بوسہ دینے اُتر آئے ہوں،ہماری سانسیں باہر نکلتے ہی دھواں بن کر بادلوں میں گھل مل جا رہی تھیں۔
نمازِ فجر سے فارغ ہوکر ہم دونوں نکل کھڑے ہوئے تھے۔دسمبر کی پہلی صبح۰۰۰۰۰۰ہم اس حسیں صبح کو کسی صورت مِس نہیں کرنا چاہتے تھے۔
بہت دیر سے چپ چاپ،اپنی اپنی سوچ میں گم،،،اس سرد اور سنسان سمے کو محسوس کر رہے تھے۔اس خاموش سمے کی پُر اسراریت نے ہمارے وجود کو اپنے حصار میں جکڑا ہوا تھا۔
میرا۰۰۰۰۰اسُکا۰۰۰۰۰۰اور ہم سب کا دسمبر۰۰۰
اک عجب اداس سا بندھن۰۰۰اک نامعلوم سا تعلق۰۰۰۰اک تنہائی کا احساس۔
کسی کی یاد۰۰۰۰کوئی پرانا ساتھ۰۰۰۰کوئی کھویا ہوا پل۰۰۰۰۰
لگتا تھا سب کچھ لوٹ آتا ہے ۰۰۰۰دسمبر کے ساتھ
دیکھو۰۰۰۰۰
“دسمبر پھر آگیا”
اُس نے ایک عجب سی سرشاری سے کہا۔
“ہاں”،،،،میں نے مسکراتے ہوئے ،گرم شال سے جھانکتے اسُکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
اسُکی روشن آنکھوں میں مجھے یادوں کے لا تعداد دئیے جلتے نظر آرہے تھے۰۰۰
پتہ نہیں کیوں دسمبر مجھے ہمیشہ اپنا اپنا سا لگتا ہے۔ جیسےمیرا اس سے کوئی خاص بندھن۰۰۰۰کوئی رشتہ۰۰۰۰کوئی اپنا پن۰۰۰۰بہت خاص۰۰۰۰بہت قریبی۰۰۰۰۰لیکن کچھ پُراسرار سا۰۰۰۰۰الجھا الُجھا سا۰۰۰۰۰
وہ بولتی جا رہی تھی۔
خشک پتوں سے گھری زمین۰۰۰۰سرد ہوا۰۰۰۰سنسان راستہ۰۰۰۰
میں اور وہ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
میں اسُکی بات سننے کے ساتھ ساتھ ان لمحات کی خنکی کو اپنے وجود میں جذب کرنے مصروف تھا۔
تمکو معلوم ہے نا یہ سب مجھے کتنا پسند۰۰۰۰۰
سرد ہوا۰۰۰۰خاموشی۰۰۰۰۰اور لمبی اُداس راتیں۰۰۰۰۰سب کے درمیاں ہوتے ہوئے بھی اکیلا پن۰۰۰۰
شاید یہی سب تومیرے اندر۰۰۰۰۰۰
“سنو،،،،کیا تم نے کبھی اپنے اندر کے دسمبر کو محسوس کیا ہے”؟
“کیا”؟؟؟؟
میں چونک اُٹھا ۔
“ہاں”، ہم سب کے اندر ایک دسمبر ہوتا ہے،،،،”سرد”۰۰۰۰”اداس”۰۰۰۰۰اور”تنہا”دسمبر۔
ضرورت صرف اسُکو ڈھونڈنے کی ہے۔دسمبر تو موجود ہوتا ہے۔
کبھی کسی اداس شام،کسی ویرانے میں،کسی خاموش ٹھہری جھیل کے کنارے ۰۰۰۰۰۰تنہائی میں اپنے اندر کے دسمبر کو آواز دینا۰۰۰۰وہ تمہیں مل جائے گا۰۰۰۰تم اُسے پا لو گے۔
میں اسُکی آنکھوں میں اک گہری جھیل سی گہرائی دیکھ سکتا تھا۰۰۰۰۰میرے وجود میں ایک سرد سی لہر دوڑ گئی۰۰۰۰شاید میرے اندر کا دسمبر جاگ رہا تھا۔
(ابنِ آدم)
-
Recent Posts
Recent Comments
| سفرِ رائیگاں | on سفرِ رائیگاں Anonymous on اِک انتظارِ مسلسل Samia on ایک دن سب نے داستان ہو جانا… Anonymous on ایک دن سب نے داستان ہو جانا… Samia on بارش میں گُھلتے آنسو Archives
- January 2020
- November 2019
- October 2019
- June 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- July 2018
- April 2018
- March 2018
- January 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- July 2017
- May 2017
- April 2017
- March 2017
- January 2017
- December 2016
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- August 2016
- July 2016
- May 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
Categories
- "محبت آگہی ہے"
- A long drive
- الفاظ زباں نہیں، پر بے زباں نہیں
- Uncategorized
- فنا مقّدر ہے
- ہوا نصیب بنایا، سفر لکھا اُس نے
- ہر پل ہے زندگی
- لوگ محبت کرنے والے
- موم دل۰۰۰پتھر لوگ
- میں کیا سوچتا ہوں
- م۔محبت ع۔عشق
- مانوس اجنبی
- محبت ہمسفر میری
- محبت بولتی ہے
- محبت جیت جاتی ہے
- چند اندھیرے لمحات
- چُنے ہوئے لوگ
- چاہت کی قندیلیں
- یہ گذرتے پل
- کیا اور کیوں
- گہرے روگ،سنہرے لوگ
- پھول،بارش اور سمندر
- پھِسلتے لمحے
- پانی
- ان کہی باتیں
- ایک دن سب نے داستاں ہو جانا ہے
- ایک دن سب نے داستاں ہوجانا ہے
- ایک شام،ایک سوچ اور میں
- اُڑے جاتے ہیں لمحے زندگی کے
- اُداسیوں کے رنگ
- اِک انتظارِ مسلسل
- اپنوں کا درد
- اپنا اپنا سفر۰۰۰اپنی اپنی جستجو
- احساس کے رشتے
- بے لوث محبتیں
- بےنام تعلق
- بارش میں گُھلتے آنسو
- برداشت ایک طلسماتی طاقت
- تم،میں اور دسمبر
- تنہائی کا دکھ گہرا تھا
- توبہ قبول ہو۰۰۰۰
- جگر گوشے
- جدائی
- حاصلِ زیست
- خالی کشکول
- دل ہی تو ہے
- دکھاوا
- سفرِ رائیگاں
- سالِ نو
- سرد کافی
- شہرِ خموشاں
Meta
Superb!
LikeLike
khoobsorat
LikeLike
shukria
LikeLike